پاکستان

نکلے کیلاش کی تلاش میں

کیلاش وادی ایک خوبصورت زمین کا ایک خوبصورت حصہ، اس وادی کے چرند پرند اور ان کی بولی دل موہ لیتی ہے۔ وادی کے لوگ نہایت ہی ملنسار ، امن پسند ، مہمان نواز اور سب سے بڑھ کر حقوق العباد کے پیروکار ہیں۔ کیلاش کے لوگوں کا ایک پختہ یقین ہے کہ اگر آپ …

کیلاش وادی ایک خوبصورت زمین کا ایک خوبصورت حصہ، اس وادی کے چرند پرند اور ان کی بولی دل موہ لیتی ہے۔ وادی کے لوگ نہایت ہی ملنسار ، امن پسند ، مہمان نواز اور سب سے بڑھ کر حقوق العباد کے پیروکار ہیں۔ کیلاش کے لوگوں کا ایک پختہ یقین ہے کہ اگر آپ حقوق العباد پوری کرتے ہو تو تمام جہان آپ کے لئے جنت ہوں گےاور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشادِ فرمائی ہے:
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ(سورہ انبیاء آیت 47)
ترجمہ
اور قیامت کے دن ہم عدل والی میزان قائم کردیں گے۔ سو کسی پر ذرا سا ظلم بھی نہ ہوگا اور اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے حاضر کردیں اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔

کیلاشی لوگوں کا ایمان خدا پر پختہ ہے ، ہاں ان سے ملنے کے بعد مجھے معلوم پڑا کہ وہ انبیاء آخری الزماں پر یقین نہیں رکھتے تو ہم انہیں کافر کہتے ہیں۔خیر یہ ان لوگوں کا ایک اپنا مذہبی عقیدہ ہے۔ کیلاشی لوگوں کے مذہبی عقیدہ میں تین مذہبی تہوار ہے۔
پہلا: جو مئی کے وسط میں منایا جاتا ہے
دوسرا: جو اگست میں منایا جاتا ہے
تیسرا: یہ اہم ترین مذہبی تہوار ہوتا ہے، یہ 9 دسمبر سے 21 دسمبر تک جاری رہتا ہے۔ 22 دسمبر کو رات 12 بجے یہ نیا سال مناتے ہیں۔
کیلاش کی تین وادیاں بمبوریت، رمبور اور برون کافرستان کہلاتی ہیں، مگر کیلاش کے لوگ یہ نام پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک کافرستان کہنے والے دراصل نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب کیلاش جانے کا اتفاق ہوا توہم میوزیم کے بالکل سامنے ایک گوہر نامی مینیجر کے ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے اور اس وقت میرے اوسان خطاتھے کیونکہ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگا؟ خیر شام کے کھانے سے پہلے ہم میوزیم گئے تو ہمیں وہاں پر زرتاج گل ملے اور انہوں نے ہمیں میوزیم دیکھایا اور پھر ہم اپنے ہوٹل کے کمرے کی طرف مڑے جو کہ اخروٹ کے درختوں کے حصار میں لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ یہیں رات بسر کی اور اگلی صبح ہمیں زرتاج گل ایک خاص جگہ لے گئے جہاں عورتیں ماہواری ایام گزارتی ہیں۔وہاں سے کراکال گاؤں گئے۔گاؤں کے آخر میں کھلے عام رکھے تابوت دو ہزار سال قدیم روایات کے تسلسل کی شہادت دے رہے تھے۔ پھر ہم موٹر سائیکل پر بیٹھے اور کیلاش سے منسلک علاقوں کو دیکھا جو ان کی مقدس جگہیں تھیں جہاں وہ سال میں تین دفعہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور اس کے بعد ہم زرتاج کے ساتھ ان کے گھر گئے۔
جہاں میرے ذہن میں ہزاروں سوال پانی کے گرم بلبلے کی طرح ابل رہیے تھے تو مجھ سے صبر نہ ہوا اور میں نے زرتاج سے وہ سوالات پوچھنا شروع کردئیے جن کو میں جاننے کے لیے اتنی دور گیا تھا۔
سب سے پہلا سوال وہی گھسا پٹا سا جو ہر لونڈے لپاڑے کے ذہن میں آتا ہے کہ کیا کیلاشی عورتیں گھر سے بھاگ کر غیر کیلاشی لڑکے سے شادی کرلیتی ہیں؟ اس بات میں کتنی صداقت ہے ؟ تو زرتاج نے اس کا تسلی بخش جواب دیا
اگر کوئی غیر کیلاشی لڑکا کیلاشی لڑکی کو پسند کرلے اور لڑکی بھی شادی پر رضا مند ہو جائے تو لڑکی اپنے والدین کو مطلع کرتی ہے کہ وہ رات کو بھاگ جائے گی۔ گھر چھوڑنے سے پہلے لڑکی اپنے محبوب کا نام اور گھر کا پتہ والدین کو بتا دیتی ہے۔
پیشگی اطلاع کے باوجود غیرت کے نام پر خون خرابا ہوتا ہے اور نہ ہی پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ کیلاش رواج کے مطابق گھر سے بھاگ جانے والی لڑکی اپنے والدین کا انتظار کرتی ہے اور کسی طرح کا جسمانی تعلق قائم نہیں کرتی۔ جبکہ اگر لڑکا کیلاشی ہو تو کیلاش کے بزرگ اپنی بیٹی کو اس کی رضا مندی سے ایک بار واپس گھر لے جاتے ہیں اور شادی کی تاریخ طے کرکے بارات کو کیلاش بلایا جاتا ہے اور پھر روایات کے مطابق بارات رخصتی ہوتی ہے۔ مہمانوں کی تواضع بکرے کے گوشت اور پنیر سے کی جاتی ہے۔ بکرے کو ذبح کرتے ہوئے جو خون نکلتا ہے وہی نکاح کا اعلان ہوتا ہے۔
بکرا کیلاش والوں کا ہو تو میاں بیوی میں سے صرف ایک کھاتا ہے اور اگر باہر سے خرید کر لایا گیا ہو تو پھر دونوں کھاتے ہیں۔ شادی کے بعد کیلاشی لڑکی جب اپنے شوہر کو میکے لاتی ہے تو دلہن کے ہر رشتہ دار کو دلہا کچھ روپے ادا کرتا ہے اور ایک دیگ پکا کر سب کو کھلاتا ہے (بقول زرتاج گل)۔
زرتاج گل کے توسط سے ہم دوسرے کیلاشی لوگوں سے ملے اور میرا سوالات پوچھنے کا سلسلہ جاری رہا تو میرا اگلا سوال یہ تھا کہ کیلاشی لوگ مہمان نوازی اور سیاحوں کے آنے جانے کو کس نگاہ سےدیکھتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم کیلاشیوں کی ثقافت دیکھنے کے لیے ملک کے علاوہ دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں جن کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں لیکن
پہلا: ان سے ہماری یہ درخواست ہے کہ وہ آئیں اور بغیر اجازت تصویریں نہ کھینچیں۔
دوم: سیاح کسی سے پوچھے بغیر گھروں میں بھی داخل نہ ہوں کیونکہ یہ ہمیں اچھا نہیں لگتا۔
سوم: جو سیاح وادی کیلاش آتے ہیں وہ دوسروں کو غلط معلومات فراہم کرتے ہیں اور کیلاشی لڑکیوں کے بارے میں غلط باتیں کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اگر کوئی سیاح یہاں آئیں تو درست معلومات لے کر جائیں۔
چوتھا: سیاح کیلاش کی ثقافت کو اور اس کی خوبصورتی کو دیکھیں، مقامی لوگوں کی عزت کا خیال رکھیں اوراگر کوئی کیلاشی اجازت دے تب ہی اس کے گھرکے اندرداخل ہوں۔
مزید وہ اصافہ کرتے ہوئے بولے؛ لوگ تو کیلاشی خواتین اور ان کی ثقافت دیکھنے کے لئے آتے ہیں لیکن وادی کیلاش میں خواتین کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔
انہوں نے بتایا کہ علاقے میں موجود بی ایچ یو (B.H.U) میں نرس تو ہے لیکن لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ یہاں پر ایک لیڈی ڈاکٹر تعینات کرے۔ نیز ہسپتال میں ایمبولینس سروس نہیں ہے اگر کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے تو کبھی چترال جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ آیون سے بمبوریت تک سڑک بن جائے تو مقامی قبائلیوں کو بھی فائدہ ہوگا اور سیاح کو بھی آسانی ہوگی اور وہ بھی زیادہ تعداد میں یہاں آ سکیں گے۔ خیبر پختونخوا کی ضلع چترال میں کئی سو سال کی تاریخ رکھنے والی کیلاشیوں کی آبادی تین سے چار ہزار افراد تک محدود ہوگئی ہے۔
خیر ہم نے سوالات کا سلسلہ روکا اور ہم نے زرتاج کے گھر میں ان کی والدہ سے ملے ان سے دعائیں سمیٹی۔ پھر انہوں نے ہماری خوب آؤ بھگت کی ، خشک میوہ جات اور انگور کا شربت پیش کیا گیا لیکن ہم نے نہیں پیا یہ ڈرتے ہوئے کہ یہ شراب ہے اور ہم بہک نہ جائے لیکن زرتاج نے ہمیں مکئی کا بھٹہ پیش کیا جو بہت ہی لذیذ تھا دل کرتا تھا کہ یہ ختم ہی نہ ہو، میں نے بہت سے بھٹے کھائے مگر اس کا کوئی جواب نہیں۔
خیر آسمان پر گھنے بادل چھا چکے تھے اور رات کی تاریکی ہورہی تھی تو ہم اپنے ہوٹل کے کمرے کی طرف لپکے۔ اور تین دن کے قیام کے بعد ہم نے وآپس لاہور کی راہ لی۔

سفیان سکھیرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button